دکن میں نئی سلطنت کا ظہور

سلطان محمد بن تغلق نے فیصلہ کن جنگ کی تیاری شروع کردی. عماد الملک سرتیز اور ملک افغان اس کے ساتھ ہوئے شاید یہی وہ وقت تھا جب اسماعیل شاہ نے گلبرگہ پیام بھیج کر یہ حکم دیا کہ دکنی فوج کا ایک حصہ دولت‌آباد بھیج دیا جائے. "ظفر خاں" کی قیادت میں 30000 فوجی بشمول افغان، مغل، راجپوت،اور دکنی سپاہ دولت آباد پہنچ گئے، جس سے اسماعیل شاہ کو تقویت حاصل ہو گئی.

دولت آباد پہنچ کر فوراً سلطان نے اسماعیل شاہ پر حملہ کر دیا. اسماعیل شاہ کے ساتھ سلطان کے مقابلے میں ظفرخان، حسام‌الدین اور نصرت خاں تھے.

دکنی امراء نے باہم مشورہ کیا اور یہ طے پایا کہ اسماعیل شاہ جب تک ممکن ہوسکے دولت آباد پر قبضہ رکھیں اور باقی امراء  اپنی اپنی جاگیروں پر چلے جائیں.

دوسرے دن سلطان  نے دولت آباد پر قبضہ کرلیا جو بالکل غیر محفوظ چھوڑ دیا گیا تھا. اب اس نے خیال کیا کہ پچھلے چند برسوں میں جو کچھ کھویا تھا  وہ سب اسے واپس مل گیا شکرانے کے طور پر  اس نے تمام سیاسی قیدیوں کی آزادی کا اعلان کرد یا. 2 ماہ کے قیام کے بعد سلطان کو گجرات روانہ ہونا پڑا.  سلطان نے ملک جوہر، شیخ برہان الدین، اور سرتیز خاں کو  بقیہ معاملات نپٹانے پر مامور کر دیا. حکم سلطان کے برخلاف ملک جوہر نے جنگی قیدیوں کو قتل کر دیا اور دولت آباد کے باشندوں پر ظلم ڈھایا.

ظفرخان اگلی جنگ کی تیاری میں ارکہ میں  تین ماہ مقیم رہا اور وہاں سے ساگر پہنچا جہاں کمان دار  اسکندر خاں اور دوسرے لوگ اس سے مل گئے وہ ساگر ہی میں تھے جب انھوں نے سنا کے عماد الملک سرتیز نے گلبرگہ پر قبضہ کر لیا.  ظفرخاں نے مجلس جنگ منعقد کی اور  طئے کیا کہ جوہر کو شکست دینے کے لئے دولت آباد پر چڑھائی کی جائے اور سرتیز جہاں بھی ملے اس کا صفایا کیا جائے.

سرتیز کا مقابلہ ظفر خاں سے سندتاں میں ہوا، اور اس کے ساتھ ایک بھاری فوج تھی. ظفر خاں کی فوج میں تلنگانہ کے رائے کا بھیجا ہوا  پندرہ سو سپاہ کا رسالہ مل گیا، اور اس نے چند ابتدائی جھڑپوں کے بعد دہلی کی فوج پر جم کر حملہ کیا اور اسے پورے طور پر شکست دے دی.

ظفرخاں کا اسماعیل شاہ نے دولت آباد سے تقریباً دس میل نظام پور کے مقام پر شایان شان، تزک و احتشام سے استقبال کیا. اسماعیل کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ ظفر خاں نے  اپنی ماہرانہ جنگی چالوں سے بڑی مقبولیت حاصل کر لی ہے. ظفر خاں کی واپسی کے دو ہفتے بعد اس نے امراء کو جمع کیا  اور ان سے کہا کہ دراصل اس نے حکومت ظفرخاں کی امانت کے طور پر اس وقت تک اپنے ہاتھ میں رکھی اور تخت سے اپنی دستبرداری کا اعلان کردیا.

اب چونکہ دکن کا تخت سلطنت خالی تھا اس لیے فوج اور عوام الناس نے بالاتفاق ظفرخاں کو

"سکندرثانی علاؤالدین حسن بہمن شاہ الولی"

کے لقب سے بالاتفاق بادشاہ منتخب کر لیا بروز جمعہ 24 ربیع الثانی 747 ہجری بمطابق 3 اگست 1347 عیسوی  کو یہ مبارک ساعت صدرالشریف سمرقندی اور میر محمد بدخشانی سے نہیں بلکہ ہندو جوتشی کے حساب سے قبول کی اور دولت آباد کی مسجد قطب الدین مبارک شاہ خلجی  میں اپنے پیرومرشد

"شیخ سراج الدین جنیدی"

کے ہاتھوں تاج شاہی زیب سر کیا.

Comments

Popular posts from this blog

بہمنی سلطنت

علاء الدین حسن بہمن شاہ گنگو (1347-1358ء)

Alauddin Hasan Bahman Shah Gangu(1347-1358 AD)